#Libraries in Karachi
Explore tagged Tumblr posts
Text
خالق دینا ہال : شہر قائد کی یادگار عمارتیں
خالق دینا ہال برصغیر کی وہ واحد عمارت ہے، جسے خلافت تحریک کے حوالے سے نمایاں تاریخی اہمیت حاصل ہے ،جس جگہ آج خالق دینا ہال واقع ہے، وہاں 1906ء سے قبل نیٹو جنرل لائبریری کی چھوٹی سی عمارت واقع تھی۔ یہ کراچی کی پہلی عوامی لائبریری تھی ،جسے کمشنر سندھ سر بارٹلے فرئیر نے قائم کیا تھا اس وقت جب یہ چھوٹی سی لائبریری اپنی زندگی کے پچاس سال مکمل کرچکی تھی۔ کراچی کی ایک ممتاز اور مخیر شخصیت سیٹھ غلام حسین خالق دینا نے اس کے لیے اپنے انتقال سے قبل اپنے وصیت نامے میں 18 ہزار روپے کی رقم اس شرط پر مختص کی تھی کہ اس رقم سے لائبریری کی پرانی عمارت کی جگہ ایک نئی وسیع اور شاندار عمارت تعمیر کی جائے لائبریری سے ملحق ایک پبلک ہال بھی تعمیر کرایا جائے، جو لائبریری کی ملکیت ہو، اس ہال کو کرائے پر چلا کر اس کی آمدنی سے لائبریری کا انتظام موثر طریقے سے چلایا جائے نیز نئے تعمیر شدہ ہال کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔
غلام حسین دینا کی وصیت کے مطابق نئی عمارات کو تعمیر کرانے کے لیے مزید قطعہ اراضی کی ضرورت تھی چنانچہ نگران کمیٹی نے حکومت بمبئی سے مزید زمین مہیا کرنے کے لیے درخواست کی، جسے 11 فروری 1902ء کو منظور کر لیاگیا۔ اس کے تحت پہلے سے موجود اراضی 2289 مربع گز میں مزید 2522 مربع گز کا ملحقہ قطعہ بھی شامل کرنے کا اجازت نامہ جاری کر دیا گیا۔ وصیت کے مطابق عمارت کی تعمیر کے سلسلے میں ایک یہ بھی مشکل تھی کہ غلام حسین خالق دینا کی عطیہ کی ہوئی اٹھارہ ہزار روپے کی رقم قطعی ناکافی تھی چنانچہ نگران کمیٹی نے کراچی میونسپلٹی سے مالی امداد کی درخواست کی۔ کراچی میونسپلٹی نے کچھ پس وپیش کے بعد اس درخواست کو منظور کرکے سولہ ہزار روپے کی رقم فراہم کر دی۔ 1905ء میں خالق دینا ہال کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا اور 1906ء میں یہ عمارت تیار ہوچکی تھی اس نئی عمارت کی تعمیر پر 38 ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔
اس خوبصورت عمارت میں ایک 70 فٹ لمبے اور 40فٹ چوڑے ہال کے علاوہ لائبریری کے لیے د و کمرے بھی تعمیر کیے گئے تھے۔ 16جولائی 1906ء کو اس وقت کے کمشنر سندھ مسٹر ہینگ ہسبینڈ نے اس عمارت کا افتتاح کیا تھا۔ تعمیر کے بعد اس کا ہال کراچی کی مختلف سماجی اور سیاسی تقریبات کے لیے استعمال ہوتا رہا، مگر ستمب�� 1921ء میں اس ہال میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقاء پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تو اس عمارت کو لازوال تاریخی اہمیت حاصل ہوگئی اور برصغیر کا بچہ بچہ اس سے واقف ہوگیا۔ خلافت تحریک کے مناسبت سے اس عمارت کے ہال کے باہر ایک کتبہ آویزاں ہے جس پر مندرجہ ذیل تاریخی عبارت کندہ ہے۔ 09 جولائی 1921ء کو تحریک خلافت کے جلسے میں مولانا محمد جوہر نے ایک قرار داد منظور کرائی کہ افواج برطانیہ میں مسلمانوں کی بھرتی خلاف شرع ہے اس جرم میں مولانا اور ان کے رفقاء پر حکومت برطانیہ نے بغاوت کا مقدمہ اسی عمارت میں چلایا تھا.
مگر مقدمے کی پوری کارروائی کے دوران مولانا کا موقف یہ رہا: ہم کو خود شوق شہادت ہے گواہی کیسی فیصلہ کر بھی چکو مجرم اقراری کا اس مقدمے کے فوراً بعد ایک جعلی تنازعے کے ذریعے انگریز حکومت نے اس ہال اور لائبریری کی زمین کو کراچی میونسپلٹی سے منسلک کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ہال کی آمدنی کراچی میونسپلٹی کو جانے لگی، تاہم میونسپلٹی کو پابند کر دیا گیا کہ وہ ہال اور لائبریری کے لیے باقاعدگی سے سالانہ امداد فراہم کرکے اورعمارت کی دیکھ بھال اور ٹوٹ پھوٹ کا خیال رکھے چنانچہ کراچی میونسپل کارپوریشن اس ہال اور لائبریری سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو نہایت احسن طریقے سے انجام دیتی رہی۔تحریک پاکستان کے دنوں میں اس عمارت میں کئی اہم سیاسی اجلاس منعقد ہوتے رہے دراصل یہ عمارات خلافت تحریک کے بعد تحریک پاکستان کا مرکز بن گئی اور اس طرح مسلمانان کراچی پراس عمارت کا قرض پہلے سے سوا گنا ہو گیا مگر افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد اس قرض چکانے کی بجائے اس کی وہ بے قدر ی ہو رہی ہے کہ اس تاریخی عمارت کا وجود ہی خطرے میں پڑتا نظر آرہا ہے۔
شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گاہیں)
0 notes
Text
کراچی شہر کا قدیم ترین کتب خانہ فریئر ہال لائبریری
کراچی شہر کا قدیم ترین کتب خانہ فریئر ہال لائبریری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کتب خانے نے ایک صدی سے زائد کا سفر طے کرنے کے بعد آج بھی اپنے قارئین کی توجہ کی مرکزیت حاصل کر رکھی ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ شروع میں اس کا نام جنرل لائبریری تھا۔ 1844ء میں اس کا آغاز ایک چھوٹے سے کتب خانے سے ہوا تھا۔ تب یہ فوجی افسروں کی خدمات کے لیے چھاؤنی میں قائم کیا گیا اور جب اس کے قدر دانوں میں اضافہ ہوا، تو 114 اکتوبر 1851ء کو اس کتب خانہ کو جم خانہ کے ایک کمرے میں منتقل کر دیا گیا اور اس وقت اس کا نام جنرل لائبریری رکھا گیا۔ جگہ کی قلت کے پیش نظر فریئر ہال کی تعمیر کا کام 1883ء میں شروع کیا گیا اور دو سال کے عرصہ میں 1885ء میں کراچی کی یہ خوبصورت عمارت ایک لاکھ اسی ہزار روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی۔
یہ عمارت دو منزلہ بلند و بالا مغربی تعمیر کا نمونہ تھی۔ اس میں نیچے کی منزل میں کتب خانہ رکھا گیا اور بالائی منزل پر آڈیٹوریم بنایا گیا۔ یہ آڈیٹوریم اس وقت بھی کراچی کی ثقافتی و ادبی محفلوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہاں سٹیج ڈرامے اکثر کیے جاتے تھے۔ اس کتب خانے نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اگست 1885ء میں یہ کتب خانہ کراچی بلدیہ کی زیر نگرانی دے دیا گیا۔ اس سے پہلے کتب خانہ کا انتظام چلانے کے لیے ایک کمیٹی مقرر تھی۔ آزادی کے بعد اس تاریخی علمی مرکز کو اپنے علمی قدر دانوں کی آمد سے محروم کر دیا گیا اور کافی عرصہ تک مقفل رہا۔ 10 دسمبر 1952ء کو کتب خانہ ایک بار پھر بلدیہ کراچی کو مکمل طور پر سونپ دیا گیا اور دوبارہ عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
اس زمانہ میں ایک چھوٹے سے حصے میں لائبریری اور بقیہ نچلی منزل اور بالائی منزل پر عجائب گھر بنا دیا گیا۔ 1969ء میں عجائب گھر یہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہو گیا، تو عمارت پوری طرح کتب خا نہ کے لیے استعمال میں لائی جانے لگی۔ اس سے قبل 1965ء میں اس کتب خانے کا بیشتر علمی مواد جو خوبصورت لکڑی کی الماریوں میں درجہ بندی اور کیٹلاگ کے ساتھ آراستہ کیا گیا تھا، جو نئی کتابیں آتی تھیں، ان کی درجہ بندی اور فہرست سازی کراچی لائبریری ایسوسی ایشن کے تحت چلنے والے سرٹیفکیٹ کورس کے طلبہ کو عملی مشق کے لیے یہاں لا کر اُن سے مکمل کرائی جاتی۔ ممبروں کو کتابیں جاری کی جاتی تھیں جبکہ مطالعہ کے لیے چھوٹی چھوٹی میزیں بھی بڑے کمرے میں الماریوں کے ساتھ رکھی گئی تھیں۔ کتب خانہ کا ماحول برطانیہ کی کسی کاؤنٹی کی چھوٹی لائبریری کی جھلک پیش کرتا تھا۔ شہر کراچی کے معززین کی بڑی تعداد اس علم کدہ سے فیض یاب ہوتی تھی۔
کتب خانہ کی قدامت اور اس کی عمارت کی شکستہ حالت کو دیکھ کر حکومت نے 1971ء میں اس کو غیر محفوظ قرار دے دیا اور اس کی دوبارہ تعمیر کا کام شروع کیا گیا، ساتھ کتب خانہ کی جگہ میں بھی توسیع کی گئی اور قریباً ایک لاکھ سے زائد کتابوں کی گنجائش کا اہتمام کیا گیا۔ عمارت ک�� تعمیر کا یہ مرحلہ 1978ء میں مکمل ہوا اور 23 جون 1979ء کو کتابوں کو نئے سرے سے ترتیب دے کر عوام کے لیے کھول دیا گیا۔1951ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس کتب خانے کا نام بلدیہ کراچی نے لیاقت ہال لائبریری رکھ دیا۔ کتب خانہ کی عمارت آج کل شہر کراچی کے وسیع سبزہ زار باغ جناح کے قلب میں تشنگان علم کی پیاس بجھانے میں اسی طرح مصروف ہے، جس طرح سو سال قبل اس کے دروازے پر علم کے طالب آتے تھے۔
کتب خانہ کی امتیازی حیثیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔ آج بھی اس میں پندرہ بیس ہزار کے قریب نادر اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ ان کتابوں کے لیے الگ ایک سیکشن بالائی منزل پر قائم کیا گیا ہے۔ نچلی منزل پر عوامی کتب خانہ ہے، جس میں بیالیس ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں۔ قریباً پچاس ملکی اور غیر ملکی رسائل اور جرائد یہاں وصول ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر انگریزی، اُردو، سندھی، گجراتی زبانوں میں ہیں۔ کتب خانہ میں جدید غیر مطبوعہ مواد کی خریداری کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ ا��ید ہے کہ جلد ہی اس کتب خانہ میںسمعی و بصری آلات پر مشتمل ایک منفرد شعبہ عوام کو خدمات مہیا کرنا شروع کر دے گا۔ اس طرح مالی وسائل میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ عملہ کی کمی کو بھی پورا کیا جا سکے گا۔
(کُتب اور کُتب خانوں کی تاریخ، از اشرف علی)
0 notes